Black Hole by Ibn e Adam episode 1 (BOLD VERSION)
Ibn e Adam wrote the famous Urdu novel Black Hole, which is social, bold, and romantic. It is situated in a society where crime and abduction are common activities. The book is available for free download as part of a comprehensive collection of easy-to-read Urdu literature. To continue reading, just click on the book's title and save it to your computer. You can download the book in PDF format by clicking on a link that appears on MediaFire. For further material, please visit the website.
#ایجنٹ_بیس
#بولڈ_ناول
#ابن_آدم
#قسط_نمبر_1
Episode 1
استنبول بھی دیسی آدمی کے خواب جیسا ہے، جو روایت سے جُڑ کر دنیا کی ہر خوبصورتی کے تصور کو تصویر کرنا چاہتا ہے استنبول، جہاں مشرق اور مغرب آکر ملتا ہے، کبھی مشرقیت غالب دکھائی دیتی ہے تو کہیں یورپ کی ہوا کا ایک بُھبوکا سا آتا ہے اور آدمی کو اُڑا کرلے جاتا ہے اگر آدمی نے یورپ نہ دیکھ رکھا ہو تو یہاں یورپ کی جھلکیاں ضرور دکھائی دیتی ہیں، اور اگر یورپ کا باشندہ ہو تو یہ ملک مشرق کی تصویر لگتا ہے استنبول کے بلکل درمیان سے گزرتے خوبصورت دریا دریائے باسفورس کے کنارے موجود ایک بلند و بالا بلڈنگ کے آخری فلور پر ابھی ابھی ایک لڑکی کو پہنچایا گیا تھا جو برطانیہ سے ایک لمبی فلائٹ کے بعد استنبول پہنچی تھی چہرے سے تھکن اور گھبراہٹ کا احساس بلکل نمایاں تھا ٹیبل پر رکھے پانی کے گلاس کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے اس کی نظر بار بار عقب میں بیٹھے پولیس اہلکار جیک کی طرف جا رہی تھی جیک ہی وہ واحد شخص تھا جس کو وہ یہاں جانتی تھی اب دونوں کی ملاقات بھی کچھ دیت پہلے ہی ہوئی تھی جیک ہی اسے یہاں لایا تھا
لیڈیز اینڈ جنٹلمین مائی نیم از انسپکٹر مارک امید کرتا ہوں کہ آپ اس چھوٹی سی پریزینٹیشن کو پوری توجہ سے سنیں گے___سکرین کے سامنے کھڑے ہوتے ہی اس کی بلند آواز نے کمرے میں موجود ہر شخص کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا
ہم سب جانتے ہیں کہ ترکی از آ گیٹ وے آف یورپ! ایشا بھر کے لوگوں کے لیے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا سب سے آسان راستہ استنبول ہے اور یہ لوگ جب غیر قانونی طور پر یورپ میں گھستے ہیں تو اپنے ساتھ بہت سا غیر قانونی سامان بھی لاتے ہیں اسلحہ، ہیروئین، ڈرگز، انسانی اعضاء اور جسم فروشی کے لیے اغوا کی گئی ایشین لڑکیاں بھی! مختلف رپورٹس کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے یورپ بھر میں ڈرگز اور غیر قانونی انسانی اعضاء کی ترسیل بہت بڑھ گئی ہے اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو چند ہی سالوں میں یورپ کا ایک بڑا حصہ ایشائی ممالک کی طرح ڈرگز کا شکار ہو چکا ہو گا یورپ بھر میں ڈرگز اور انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کا یہ سارا نیٹ ورک لوکل یورپین اور غریب ممالک سے آنے والے افراد کی مدد سے ایک منظم طریقے سے چلایا جا رہا ہے کیونکہ یورپ کو پہلی بار اس مسئلے کا سامنا ہے اس لئے ہمارے پاس بہت زیادہ پاسٹ انفارمیشن نہیں ہے ہماری اینٹیلی جینس رپورٹس کے مطابق استنبول سے سمگلنگ کا یہ سارا نیٹ ورک رستم شاہ نامی ایک شخص آپریٹ کر رہا ہے یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ہمیں اس شخص کا پتہ ہے تو ہم اسے گرفتار کیوں نہیں کر لیتے؟؟ انسپکٹر مارک سوالیہ نظروں سے سب کے چہروں کی طرف متوجہ ہوا___پرابلم از ڈیٹ کہ رستم شاہ نام کے چار ڈرگ ڈیلرز استنبول میں کام کر رہے ہیں اگر ہم غلطی سے بھی کسی نقلی رستم کو گرفتار کرتے ہیں تو اصلی رستم چوکنا ہو جائے گا ہمارا مقصد صرف رستم شاہ کو گرفتار کرنا نہیں بلکہ اس نیٹ ورک کو بھی ختم کرنا ہے جو تب ہی ممکن ہے جب ہم اصلی رستم کو گرفتار کریں
رستم شاہ نمبر 1 استنبول کے مشرقی حصے، دوسرا رستم شہر کے وسط، تیسرا رستم ایئرپورٹ کے قریب اور چوتھا ممکنا رستم استنبول کے مغربی حصے میں ہے ہمیں جس رستم شاہ پر سب سے زیادہ شک ہے وہ ہے دوسرا رستم جو شہر کے عین وسط میں ہے مگر اس دوسرے رستم شاہ کی بھی مزید تین شناختیں ہیں یہ رستم شاہ، کاشف رانا اور ولیم راٹھور تین مختلف شناختوں سے جانا جاتا ہے ہمارا مشن اس تین ناموں والے شخص کی اصلی شناخت جاننا اور رستم ہونے کی صورت میں اسے گرفتار کرنا ہے اس کی ایک ہی کمزوری ہے اور وہ ہے پریسٹوشن!!! جی ہاں یہ شخص عورتوں کا رسیا ہے عورتوں میں بھی اس کی پسند ایشین لڑکیاں ہیں اور اگر لڑکی کا تعلق پاکستان یا انڈیا سے ہو تو اس کے لئے خود پر قابو پانا ناممکن ہو جاتا ہے___پلان بہت سادہ ہے ہماری کوئی سیکرٹ ایجنٹ ایک پریسٹیویٹ کے روپ میں اس کے پاس جائے گی اور شناخت ہوتے ہی ہمیں سگنل دے گی اور ہم اس شخص کو گرفتار کر لیں گے اور یہ کام کریں گی مس فائمہ____انسپکٹر مارک نے پریشانی سے ہونٹ کاٹتی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو مزید سہم گئی تھی___مس فائمہ کچھ عرصہ پہلے ایک برطانوی شہری مسٹر فیروز سے شادی کے بعد پاکستان سے برطانیہ شفٹ ہوئی تھی اور برطانیہ آتے ہی کچھ وجوہات کی بنا پر ان کا طلاق ہو گیا مس فائمہ پرسنلی ایک پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور میرے خیال سے اس مشن کے لئے ایک پرفیکٹ آپشن بھی____فائمہ کا تعارف سنتے ہی سب کی نظریں بے اختیار اس لڑکی کی طرف گئی جو چہرے سے پسینہ صاف کرنے کے بہانے اپنا چہرہ چھپا رہی تھی اس کے بدن کی کپکپاہٹ وہاں بیٹھے ہر شخص پر عیاں ہو رہی تھی___مارک اس لڑکی کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے یہ ماضی میں کسی سیکریٹ مشن کا حصہ نہیں رہی ہے تم کیسے اس سے یہ امید رکھتے ہو کہ یہ لڑکی اس مشن کو مکمل کر پائے گی؟؟ ایک سنئیر آفیسر نے لاجیکل سوال مارک کے سامنے رکھ دیا تھا فائمہ کی گھبراہٹ اور زرد چہرے نے ہی سب کچھ عیاں کر دیا تھا کہ وہ کسی طرح بھی اس مشن کے لئے موزوں نہیں ہے___میرے خیال سے یہی لڑکی بہترین ہے اگر ہم کسی ٹرینڈ لڑکی کو استعمال کریں گے تو وہ فوری پکڑی جائے گی اور ویسے بھی میں اور میری ٹیم ہمیشہ اس کے ساتھ ہوں گے فائمہ کو ہی اس مشن کے لئے سلیکٹ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں یہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں، ایک پاکستانی ہیں جو کہ ہمارے ٹارگٹ کی کمزوری ہے اور سب سے اہم یہ بلکل ان ٹرینڈ ہیں اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتی جس کا مطلب ہے کہ فائمہ خود سے زیادہ اعتماد ہم پر کرے گی اور کسی کو اس پر شک بھی نہیں ہو گا
مارک میرا نہیں خیال کہ یہ بہتر آپشن ہے بہرحال اگر تمہیں ٹھیک لگتا ہے تو آئی ہیو نو ایشو کیونکہ اس مشن کی فائنل رپورٹ بھی تم نے ہی جمع کروانی ہے___مارک از آلوز رائٹ سر___وہ مغرورانہ انداز میں آنکھیں ونک کرتے ہوئے مسکرا دیا یہ صرف ایک لائن نہیں ایک حقیقت تھی مارک 30 سالہ ایک خوبرو نوجوان تھا ایشین چہرے پر خوبرو یورپین آنکھیں اس کے چہرے کی کشش میں اضافہ کر دیتی تھی وہ اپنی حاضر دماغی سے کم عمر میں ہی کئی خفیہ مشن کامیاب کروا چکا تھا اس کا دماغ کسی سپر کمپیوٹر کی مانند بیک وقت چاروں طرف چلتا تھا وہ ایک ہی وقت میں دو مختلف چیزیں سوچ کر انہیں لکھ سکتا تھا اس کی یہی خدادا صلاحیتیں اسے کیریئر کے آغاز پر ہی اتنا آگے تک لے آئی تھی کہ وہ کم عمری میں ہی انٹرنیشنل مشن کو لیڈ کرنے والا تھا
اس بلیک ہول میں ہم تب تک کسی کے لئے اہمیت رکھتے ہیں جب تک اسے ہماری ضرورت رہتی ہے یہاں ہر رشتے کی بنیاد صرف لالچ ہے___موبائل پر ماہا کی درجنوں کالیں دیکھ کر اس کے دماغ میں فارس پھر اپنے الفاظ کے ساتھ امڈ آیا تھا فائمہ لندن آنے کے بعد سے فارس کو بھلانے کی ہزار کوششوں میں ناکام رہی تھی وہ اسے ہر موڑ پر یاد آیا تھا وہ اسے تو پاکستان چھوڑ آئی تھی مگر اس کی محبت کے احساسات اس کے بدن پر ہمیشہ کے لئے چسپاں تھے اس کے الفاظ اس کے دماغ کے دریچوں میں گھونجتے تھے وہ ہر اس لمحے اپنی بے بسی پر چیختی تھی جب اس بلیک ہول کی دلدل اسے اپنے اندر دھنساتی تھی وہ نم آنکھوں کے ساتھ خیالی دنیا میں کھوئی فارس کی بانہوں کا احساس محسوس کر رہی تھی کہ فون پر آتی ماہا کی ایک اور کال نے فائمہ کو خیالات کی حسین وادیوں سے واپس تپتے ریگستان میں پھینک دیا
مجھ سے یہ نہیں ہو گا ماہا کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میں اپنی جان دے دوں؟ وہ فون کان کو لگاتے ہی روہانسی ہوئی تھی__
میں جانتی ہوں کہ یہ تمہارے لیے بہت مشکل ہے مگر یہی ایک راستہ ہے اگر تم نے کبیر کی بات نہیں مانی اور اس مشن کے لئے راضی نہ ہوئی تو وہ مجھے کسی صورت طلاق نہیں دے گا اور میں ہمیشہ یہاں پھنسی رہوں گی__
تم آخر ہر بار میرے کندھے پر رکھ کر ہی بندوق کیوں چلاتی ہو ماہا کیا تم اب یہ چاہتی ہو کہ میں تمہارے لئے ایک کال گرل بن جاؤں؟__
فائمہ میری کوئی بھی بات تمہیں اس کام کے لئے قائل نہیں کر سکتی سوائے اس کے کہ تم میری چھوٹی بہن ہو؟__
تو کیا تمہاری چھوٹی بہن ایک کال گرل بن جائے صرف اس لئے کہ اس مشن کی کامیابی پر تمہارے شوہر کو ترقی ملے گی اور وہ تمہیں طلاق دے دے گا؟تم نے ایک لمحے کے لئے سوچا بھی ہے کہ اگر ذرا برابر بھی گڑبڑ ہوئی تو میرے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟ فائمہ کبھی بھی اس مشن کے لئے تیار نہیں تھی اسے زبردستی لندن سے استنبول شفٹ کیا گیا تھا اور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا تھا ایک دفعہ پہلے بھی اس کی بہن اسے پاکستان سے لندن شفٹ کرتے ہوئے اس کی زندگی عذاب بنا چکی تھی اور اب پھر ایک نیا عذاب اس کا منتظر تھا انسان کی سوچ ہمیشہ اپنی ذات اور اپنے فائدے تک محدود رہی ہے وہ کسی دوسرے کا فائدہ بھی تب ہی کرتا ہے جب اسے اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہو اور اکثر تو انسان صرف ذاتی مفاد کے لئے کسی دوسرے کو رنگین خواب دیکھا کر اس کی زندگی تباہ کر دیتا ہے یہی کچھ فائمہ کے ساتھ بھی ہوا تھا جس کو اس کی بڑی بہن ماہا حسین و پرسکون زندگی کے رنگین خواب دیکھا کر لندن لے آئی تھی ماہا کے دیکھائے گئے سبز باغات اور کسی حد تک ماہا کے رعب و دبدبے کی وجہ سے وہ لندن آنے کے لئے راضی تو ہو گئی تھی مگر ان سبز باغات کی حقیقت ایئرپورٹ پر ہی کھل کر سامنے آ گئی تھی اس کی ہنستی کھلتی زندگی میں پہلا خوفناک دھماکہ تو ایئرپورٹ پر ہی ہوا تھا اور پھر اس کے بعد زندگی نے کبھی اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا
برمنگھم کی ایک سرد شام مسلم بلاک کے ایک خوبصورت ویلہ میں آتش دان کے گرد بیٹھا ایک خوبصورت جوڑا سردی کی شدت کو کم کرتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا فیروز کی آفس سے واپسی پر ہمیشہ ماہا نے فیروز کی گود کو اپنی کرسی بنایا تھا اب یوں اس سے دور بیٹھنا ماہا کو موت دیکھائی دے رہا تھا اور ویسے بھی اب وہ فیروز کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی وہ اس کے نکاح سے خارج ہو چکی تھی اور فیروز اس کے لئے نامحرم ہو چکا تھا اس سب میں فیروز کا کوئی قصور نہیں تھا اور شاید ماہ نور بھی اس معاملے میں معصوم ہی تھی قصور تھا تو صرف قسمت کا!!! قسمت کی تدبیروں کے سامنے انسان کی تمام چالاکیاں لمحے بھر میں دم توڑ جاتی ہیں اور وہ ہوا میں اڑتے بے جان پتوں کی مانند قسمت کے ہچکولے کھاتا کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ گرتا ہے___واٹ یو تھنک ماہا کیا فائمہ اس مشن کو مکمل کر پائے گی؟ فیروز نے افسردہ لہجے میں آنکھیں چراتے ہوئے ماہا کو مخاطب کیا تھا اگرچہ جو ہو رہا تھا اس میں فیروز بے قصور تھا مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ دونوں کبیر کے سامنے بے بس تھے___مجھے نہیں پتہ فیروز___ماہا میں جانتا ہوں یہ ایک مشکل ٹاسک ہے میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا تمہاری بہن تمہارے لئے قربانی دے سکتی ہے____سوال یہ نہیں ہے فیروز کہ وہ قربانی دے سکتی ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس مشن کے بعد بھی کبیر مجھے آزاد کرے گا یا نہیں؟ میں مزید ایک پل اس شخص کے نکاح میں نہیں رہ سکتی___کاش ہم اتنا بڑا قدم کبھی نہ اٹھاتے ماہا___فیروز نے بے بسی سے اپنا سر اپنی ٹانگوں میں دبا لیا___اس سے بہتر تھا ہم کبھی لندن ہی نہ آتے___فیروز کے لہجے سے بے بسی جھلک رہی تھی ان دونوں کی زندگی ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی ماہا 25 سال کی ایک ملٹی ٹیلنڈ لڑکی تھی خوبصورتی اور حسن کیساتھ جب ذہانت اور ٹیلنٹ مل جائے تو کسی بھی لڑکی کو آگے بڑھنے سے کون روک سکتا ہے اور ویسے بھی مڈل کلاس لڑکیوں کو جب سکسیس نظر آئے تو ان کے چلنے کی رفتار خودبخود تیز ہو جاتی ہے یہی سٹوری ماہ نور کی تھی جس نے اپنے حسن کو اپنا ہتھیار اور زندگی میں آگے بڑھنے کے جنون کو اپنی ڈھال بنایا اور ہر قدم زندگی میں آگے نکلتی چلی گئی اس کی آگے بڑھنے کی پیاس ایک بزنس مین فیروز اکبر خان سے شادی کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی تھی اور یہی پیاس ماہ نور اور فیروز اکبر خان کو لندن لائی تھی جہاں ان کی رومانیت سے بھرپور زندگی میں کبیر کی انٹری ہوئی جو سیر کے سامنے سوا سیر ثابت ہوا اور یوں ماہ نور ناچاہتے ہوئے بھی اس کے نکاح میں ایسی پھنسی کہ چاہتے ہوئے بھی نکل نہ سکی___ہیلو رومانوی کپل یقیناً تم دونوں ایک دوسرے کو مس کر رہے تھے___بھاری بھر کم آواز کے ساتھ ہاتھ میں جام لئے کبیر آتش دان کے قریب پہنچ گیا تھا یہی ان کی زندگی کا ولن تھا جو ناصرف حسن کی دیوی ماہا پر قابض تھا بلکہ فیروز کی زندگی کو عذاب بنانے میں اسے ایک عجیب سی خوشی ملتی تھی___مائی سویٹ ڈارلنگ یہ لو جام اور اپنے خوبصورت ہاتھوں سے ایک جام اپنے سابقہ شوہر اور ایک جام اپنے موجودہ شوہر کے لیے بنا لاؤ___میں شراب نہیں پیتا___پی لو ناں مسٹر فیروز ماہا نہ صحیح ماہا کے ہاتھ کا جام ہی صحیح یقین کرو برمنگھم کی سردی میں یہ جام تمہارے بہت کام آنے والا ہے___کبیر کے لہجے کی تشنگی کسی تلوار کی طرح فیروز کو زخمی کر گئی تھی کبیر اپنا کوٹ اتارتے ہوئے خود کو ماہا کے قریب کر چکا تھا____اگرچہ کبیر کے سر پر کوئی بال نہیں تھے مگر عقل بہت تھی اپنے چہرے کے مضبوط نقوش اور اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے وہ مخالف پر رعب طاری کر دیتا تھا____تنہائی کتنی بری چیز ہے ماہا اس کا احساس مجھے تم سے ملنے کے بعد ہوا ہے اگر تم میری زندگی میں نہ آتی تو میں کبھی اس حقیقت کو نہیں جان پاتا___وہ جام لیتے اس کے مزید قریب ہوتے ہوئے ایک بازو اس کی پشت سے گھماتے ہوئے اسے قریب کر گیا تھا____دور رہو مجھ سے کبیر___تم میری بیوی ہو اور مجھے تمہارے قریب آنے سے تمہارا یہ سابقہ شوہر بھی نہیں روک سکتا ماہا بیگم____وہ غصیلے انداز میں آنکھیں دیکھاتے ہوئے اس کی مزاحمت کو کچل کر اسے دبوچ چکا تھا___مسٹر فیروز ماہا میڈیم کو سمجھاؤ کہ میں کیا کر سکتا ہوں اور کیا نہیں___فیروز خاموش ہو کر رہ گیا تھا ____فائمہ اس مشن کے لئے چلی گئی ہے امید ہے کہ تم مشن مکمل ہونے کے بعد اپنے وعدے کے مطابق ماہا کو طلاق دو گے___مسٹر فیروز مشن مکمل ہونے تک میں اس ٹاپک پر کوئی گفتگو نہیں چاہتا فی الحال مجھے میری بیگم کیساتھ تنہا چھوڑ دو___معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کبیر نے فیروز کے چہرے کو دیکھا اور پھر ماہا کے اوورکوٹ کو اتارتے ہوئے کندھوں سے نیچے اتار گیا___تم اس طرح زبردستی نہیں کر سکتے کبیر___تم میری بیوی ہو ماہا ایک خوبصورت اور شاطر دماغ بیوی اور میں کچھ بھی کر سکتا ہوں اور ویسے بھی یہ بات تم سے بہتر کون جان سکتا ہے مائی ڈارلنگ___کبیر اپنی انگلی اس کے گالوں پر پھیرتے ہوئے گردن تک لایا تھا___تم چاہو تو یہ شو یہاں بیٹھ کر انجوائے کر سکتے ہو فیروز اکبر خان آئی ونٹ مائنڈ____کبیر کی آواز فیروز ان سنی کرتا ہو وہاں سے نکل گیا تھا فیروز اکبر خان جیسا گھمنڈی نوجوان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قدرت اسے کبھی اتنا بے بس کر دئے گی یہی تو قدرت کا کمال ہے کہ وہ کبھی کسی کی طرف حساب باقی نہیں رکھتی قدرت میزان میں ماشہ ماشہ گرام گرام پورا پورا تول تولتی ہے اور پھر حساب بغیر لحاظ کئے منہ پر مار دیتی ہے
تم اچھے سے جانتی ہو ماہا کہ یہ تیور دیکھا کر تم خود کو مجھ سے دور نہیں کر
سکتی___وہ ماہا کے چہرے پر موجود غصے کو دیکھ کر زیر لب مسکراتے ہوئے
اس کی طرف بڑھا تھا جو اس کی گرفت سے نکلتی ہوئی دور ہو گئی تھی ماہا کو کبیر سے نفرت تھی اس نے کبھی اسے اپنا شوہر تسلیم نہیں کیا تھا اگر اسے اندازہ
ہوتا کہ کبیر اس رسمی نکاح کے بعد اتنی تیزی سے رنگ بدل جایے گا تو وہ کبھی یہ
قدم نہ اٹھاتی وہ کبیر سے دور ہٹتی جا رہی تھی کہ دروازے تک پہنچتے ہی کبیر نے اسے آ لیا___آخر کب تک تم مجھ سے فرار حاصل کرو گی ماہا ڈارلنگ___وہ اس
کے کندھوں کو دبوچتے ہوئے اسے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا___کبیر ڈر جاؤ اس وقت سے جب قدرت کا عذاب تمہیں آ لے گا_____ہاہاہاہاہا ماہا تمہارے چہرے پر
صرف غرور اور تکبر سوٹ کرتا ہے اور ویسے بھی تم جیسی حسینہ قدرت کا تحفہ ہوتی ہے عذاب نہیں____کبیر کے ہاتھ کندھوں سے کھسکتے ہوئے اس کے سینے
تک آئے تھے جن کو جھٹکنے کی ناکام کوشش میں ماہا کبیر کی بانہوں میں جکڑی گئی تھی___تمہارے یہی تیور مجھے مجبور کرتے ہیں کہ میں تمہیں کبھی طلاق مت
دوں___کبیر اپنا چہرہ اس کے کان کے قریب لے جا کر دانت پیستے ہوئے سرگوشی کر رہا تھا____ماہا ایک اور ناکام مزاحمت کے نتیجے میں اپنی کلائیاں اس کے
ہاتھوں میں دئے بیٹھی تھی اس نے ایک جھٹکے سے اس کی شرٹ کو کھینچ کر اتار
ڈالا تھا____وحشی درندے کیا تم پھر سے میرا ریپ کرنا چاہتے ہو___بیوی کے ساتھ کیا گیا کوئی بھی کام ریپ کی ڈیفنیشن پر پورا نہیں اترتا___کبیر اسے دھکیلتے
ہوئے دیوار کیساتھ لگا کر اپنی زبان کا لمس اس کی گردن پر دینے لگا اس کی
مزاحمت ختم کرنے کے لئے وہ اس کی دونوں کلائیاں دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے
اس کی ٹانگوں کے درمیان اپنی ٹانگ دھنسا کر اسے مکمل بے بس کر چکا تھا اس
کے ہونٹ اس کی گردن کے ذائقوں کو چکھنے میں مصروف ہو گئے تھے